Wednesday, May 7, 2014

درپیش چیلنجز اور ان کا حل

انجمن ہوشیار پوریاں۔۔۔۔۔۔ چند جھلکیاں

خان بہادر مولانا چوہدری فتح دین مرحوم نے برصغیر کے طول و عرض میں آباد گوجروں کو  ایک پلیٹ فارم پر متحد کرکےتاریخی کارنامہ سرانجام دیا۔ قوم تا قیامت اس مرد جہاں ساز  کی شکرگزار بھی رہے گی اور ان کے لیے دست دعاء ہمیشہ دراز بھی رہیں گے۔

تقسیم برصغیر کے بعد تو اس کی اہمیت اور بھی دوچند ہو گئی جب ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہجرت کرکے پاکستان میں آباد ہونے والے گوجر اجنبی علاقوں میں بھٹک رہے تھے، ہر ایک اپنوں کی تلاش میں تھا، ایسے میں انجمن مرکزیہ گوجراں پاکستان کے پلیٹ فارم نے گوجروں کو تلاش کرنے اور ایک تنظیمی ڈھانچے میں ڈھالنے کے لیے شب و روز کوششیں گی۔

چوہدری فتح دین رحمتہ اللہ سے صفی مھمد عبداللہ رحمتہ اللہ تک انجمن مرکزیہ ایک فعال اور کامیاب تنظیم رہی   ۔ ان ادوار میں پاکستان کے مختلف علاقوں مردان، سیالکوٹ، گجرات، گوجرانوالہ ، لاہور، فیصل آباد اور دیگر علاقوں کے احباب برادری انجمن مرکزیہ کی مرکزی مجلس انتظامیہ میں شریک رہے ہیں۔ جن میں ڈاکٹر عبد العزیز سیالکوٹ ، سردار بوستان خان کھٹانہ مردان کے علاوہ کئی اہم شخصیات مجلس انتظامیہ میں شامل رہی ہیں۔  صفی عبداللہ مرحوم کے بعد موقع پرستوں نے اسے ذاتی جاگیر بنا لیا۔ انتخاب کے ڈونگ رچائے گے تاہم چند مخصوص ہوشیارپوری خاندان باری، باری اپنے مفادات کی تکمیل کرتے رہے۔

ایک عرصے تک لوگ اسے برادری کی مشترکہ میراث سمجھتے رہے اور ملک کے طول و عرض میں اس کی شاخیں قائم رہیں۔ رفتہ، رفتہ قوم پر یہ راض آشکار ہوا کہ یہ انجمن گوجراں نہیں بلکہ انجمن ہوشیارپوریاں ہے۔ تب سے پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان کے مقام لوگ اس سے لا تعلق ہوگئے۔ مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے آنے والے احباب برادری اس سے منسلک رہے لیکن ۱۹۹۰ کے سے مہاجرین مشرقی پنجاب کی دلچسپیاں بھی مانند پڑ گئیں جب انہوں نے دیکھا کہ یہ تو چند ایک خاندانوں  کا ٹی کلب ہے اور ان کے پاس برادری کی فلاح و بہبود کا کوئی ایجنڈا ہی موجود نہیں۔ یہ اتنے نا اہل لوگ تھے کہ اپنے مشرقی پنجاب والوں کو بھی مطمئن نہ رکھ سکے۔

آج کی انجمن ہوشیارپوریاں چار یا پانچ خاندانوں کی لونڈی بن چکی ہے۔  انجمن ہوشیارپوریاں کے    گزشتہ کئی سالوں کے تنظیمی  عہدیداروں کی تفصیل پر ایک نظر ڈالیے۔۔۔  آپ کو مندرجہ بالا سطور میں پیش کی گئیں جھلکیوں کی تصدیق ہو جائے گی۔

                                                کارکردگی۔
حضرت چوہدری صفی محمد عبداللہ رحمتہ اللہ علیہ کے بعد  انجمن کی ایک بھی قابل ذکر کارکردگی ریکارڈ پر موجود نہیں ہے۔ ہاں گرہ بندیاں، انجمن پر قبضہ کرنے کے لیے گروپ بازیاں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے سازشوں کے علاوہ ان کے دامن پر کچھ بھی نہیں۔
چند ایک افراد نے انجمن پر قبضہ کررکھا تھا اور نئے خون کو شریک کار کرنے پر تیار نہ تھے۔ تب چوہدری عبد الحمید، جو انجمن مرکزیہ کے سیکرٹری اطلاعات تھے، نے انجمن کے پلیٹ فارم کو توسیع دینے کی بار بار کوشش کی لیکن قابض ٹولے نے ہمیشہ حوصلہ شکنی کی، تب  ۱۹۸۴ میں انہوں نے انجمن سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے " گوجر یوتھ فورم کی بنیاد " رکھی۔ جس پر انجمن کے ہوشیارپوری حضرات نے طرح طرح کی الزام تراشیاں کیں۔ گوجر یوتھ فورم جنگ کی آگ کی طرح ملک میں پھیل گیا اور اس کی تنظیم سازی ہر گاوں اور محلے تک پھیل گئی۔
آج ان کی واحد کارکردگی فتح دین ماڈل سکول کی عمارت میں ایک بلاک کو توسیع ھے۔ گزشتہ تیس سالوں میں ایک بلاک کی تعمیر کو اگر کارکردگی کہا جائے تو پھر شرمندگی کے علاوہ کیا پیش کیا جا سکتا ہے۔
راستہ کیا ہے؟

انجمن مرکزی گوجراں کی غیر فعالیت اور چند لوگوں کے قبضے نے برادری کو تباہی سے دوچار کیا ہے۔ برادری کی اکثریت اس تنظیم سے لاتعلق ہو چکی ہے۔ ایک راستہ تو یہ ہے کہ اگر انجمن کے عہدیداران نیک نیتی سے پوری قوم کو ساتھ لے کر چلنے پر تیار ھوجائیں تو  ان کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں۔ اس سلسلے میں مرکزی قائدین کو ایک یاداشت پیش کر دی گئی ہے۔ اگر انہوں نے اس پر غور کرتے ھوئے کوئی اقدام کیا تو برادری کو بزرگوں کے قائم کردہ پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ہاں اگر انہوں نے روائتی ہٹ دھرمی کا ثبوت دیتے ہوئے ان تجاویز کو مسترد کر دیا تو پھر ملک بھر سے احباب فکر ودانش کو جمع کرکے کسی نئے پلیٹ فارم کی بنیاد ڈالی جائے گی، جو برادری کو محرومیوں سے نجات بھی دلائے گا اور مفاد پرست عناصر کی بیخ کنی کرنے کے لیے راست اقدام کرے گا۔

No comments:

Post a Comment